بس ایک شخص کے دل میں سدا رہا ہوں میں
یونہی زمانے میں سب سے جدا رہا ہوں میں
کبھی خوشی کی بھنک تک نہیں لگی مجھ کو
کہ درد و غم سے ہمیشہ لدا رہا ہوں میں
تُو میری چاکِ قبا پر یوں انگلیاں نہ اٹھا
امیرِ شہر ترا کب گدا رہا ہوں میں
کہ اس سے بڑھ کے مرا نام اور کیا ہو گا
ہمیشہ ٹوٹے دلوں کی صدا رہا ہوں میں
بس ایک شخص کو پوجا ہے عمر بھر میں نے
کہا یہ کس نے جہاں پر فدا رہا ہوں
نہیں کچھ اس میں فریب و منافقت کے سوا
ٹٹول حسن کی ہر اک ادا رہا ہوں میں
نہ اپنے پیار کی ناؤ بچا سکا باقرؔ
ہاں بدنصیب مگر ناخدا رہا ہوں میں