بغاوت میں رہا ہوں میں، بغاوت میں رہوں گا
محبت کا میں ہوں مجرم، ندامت میں رہوں گا
میں باطل کے عقیدوں کا، ہوں کافر تو کہتا ہوں
شہیدِ راہِ الفت ہوں، شفاعت میں رہوں گا
کیا یوں چاک داماں کو، رفو گر نے دغا دے کر
بچی ہے عمر جتنی وہ، جراحت میں رہوں گا
اڑانیں کم ہی دکھتی ہیں، پتنگِ دم بخود کی
اَڑی ہے جب تلک ڈوری، حراست میں رہوں گا
بنے ہے ناخدا وہ، اکتسابِ زندگی کا
ڈبو دے یا کنارہ دے، اطاعت میں رہوں گا
لٹی کیسے زُلیخا تھی، طلوعِ یوسفی پہ
ندیدہ اس تجسس کی، لطافت میں رہوں گا
صلہ گر ملتا ڈاہر کچھ شب و روزِ گراں کا
تفاخر سے میں کہہ دیتا، ریا ضت میں رہوں گا