بلبل کی عنایت ہے جو یہ رنگِ چمن ہے
قربان لہو کر کے جو گلشن میں دفن ہے
کچھ ظلم ہوا ہم پہ جو اب ترکِ وفا ہے
اک سوز ہے دل میں بھی جو یہ گرم سخن ہے
لے دے کے فقط دل تھا پسند آیا نہ وہ بھی
کہتے ہیں کہ دل آپ کا خستہ ہے کہن ہے
افکار و خیالات گرفتار ہیں جس میں
اس زلف کا تحفہ ہے جو ماتھے پہ شکن ہے
دوزخ کے گڑھے سے بھی نکل آتے ہیں باہر
پر میں ہوں پڑا جس میں وہ اک چاہِ ذقن ہے
پردہ ہو اگر رخ پہ تو تشبیہیں بہت ہیں
پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چاند گہن ہے
ہر روز نئے رنج نئے سوز لے آئے
یہ دل ہے مرا یا کوئی ناسورِ بدن ہے
وابستہ تھی اس ایک سے ہر رونقِ محفل
وہ آنکھ نہیں آج تو محفل میں امن ہے
سانسوں کو مری شانؔ معطر کئے جائے
اس تن کی یہ خوشبو ہے کہ یہ مشکِ ختن ہے