بن موسم کی بارش بھی یاروں بڑی عجیب ہوتی ہے
مگر یہ بھی کہیں کہیں کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے
پہول تو خوشبو دیتا ہے ڈالی پر ہو یا توڑلے کوئی
اس وجہ سے ہی اس کی موت اکثر قریب ہوتی ہے
کیا کریں کہ اتنا آسان نہیں غریب کا مرنا بھی یہاں
دوگز زمیں بھی کہاں غریب کو یہاں نصیب ہوتی ہے
قدرت کی قدرت کو دیکھنا ہو تو دیکھ لو اپنے آپ کو
جسم کے ہر جگہ کی اپنی اپنی ایک ترتیب ہوتی ہے
ہے اس قدر ھجوم پھر بھی کیوں اکیلے ہیں ہم رہی
نہ دل کو سکون ملتا ہےاور نہ راحت نصیب ہوتی ہے