کوئی تو لادے خبر مجھی کو اس ستمگر کی
وہ جس کی یاد مجھے آج بھی ستاتی ہے
وہ جس کا چہرہ رگ و پے میں بس گیا ہے میرے
شبیہ جس کی میرا خونِ دل جلاتی ہے
نظر جمی ہے کہ ایسی جسے ہٹا نہ سکوں
جسے بھلا نہ بھی چاہوں مگر بھلا نہ سکوں
وہ اسکا شوق تبسم جو زندگی تھا میرے
وہ چاہتوں بھرا لہجہ بکھیرتا تھا خوشی
وہ کیا گیا میرے دنیا اجڑ گئی جیسے
میرے حیات سے خوشیاں بچھڑ گئی جیسے
مجھے قبول وہ محلوں کی جگمگا ہٹ ہے
میرے گھٹن زدہ تاریک گھر میں کیوں چمکے
وہ ابرِ حسن برستا ہے زر کے جنگل پر
میں مفلسی کا ہوں صحرا وہ مجھ پہ کیوں برسے
الٰہی یا تو میرا مجھ سے حافظہ لے لے
یا زندگی جو عطا کی ہے چھیں لے مجھ سے