بڑے اندھیرے ڈھل پڑے ہیں اے! ماہتاب اب سوچ لے
عاشق سبھی اجڑ چکے ہیں اے! کائنات اب سوچ لے
یہاں اظہار بیاں کو لوگ سرکش کہتے ہیں
میں اپنی جزا سے کہتا ہوں اے! احتساب اب سوچ لے
اک حسرت کو پاکر شاید ہزار حسرتیں قتل کردوں
پھر مدعی کو کیا ملے گا اے! انصاف اب سوچ لے
نہ بھی ہو ملن کوئی مگر میرے جانے کے بعد
تیری تنہائیوں کا کیا ملے گا وہ خطاب اب سوچ لے
یہاں گوشہ نشین بہت ہیں مگر کردار قدر کہیں کہیں
تم کس کس درد کو رتبہ دو گے یہ حساب اب سوچ لے
آنکھوں میں کئی آدرش دھڑکنوں سے خالی ہیں
اکثر مزاج دل لبھاتے ہیں اے! آداب اب سوچ لے