بکھری ہوئی زلف کو کس جھونکے نے جھٹکا دیا
اتری جو اندھیری شب اس یاد کو بھٹکا دیا
تیرے درد خروشان کی دراڑ کہاں تک پہنچی
مجھے تو خاموشیوں نے اب تک بہت رلا دیا
سنا تو تھا کہ گستاخوں کی بے آبروئی ہوتی ہے
ہم تو کس تیز فہم پہ راغب تھے اور یہ سلا دیا
وحشت انگیزوں کو میں نے استدعا کی تھی مگر
محبت کی حاجت مندی کو نہ جانے کیا کیا دیا
وہ اپنے رتبے میں تقلیدی مزاج رکھتے ہیں
میں نے اپنے صدا کو کہدیا کہ رک جاؤ ذرا
ہم بے مروت کے سامنے بھی قدر شناس رہے
پھر نہ جانے کیوں وفا نے جفاؤں کو ہٹا دیا