بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا
کمی کہاں پہ ہوئی ہے، مراد بر آئی
بھرا ہے تُم نے جو گھی سے چراغ، تھوڑا سا
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے
کبھی لگے تو سہی کچھ سُراغ، تھوڑا سا
سرور قرب کا ہے، یوں اثر تو رکھتے ہیں
یہ گُل یہ باد صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، ہے دعا اظہر
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا