میری یہ بے جان زندگی اُسے متاثر کیا کرے گی
میری یہ گھائل سی عاشقی اُسے متاثر کیا کرے گی
میری زبان کی التجا اُس نے رد کر دی
بھلا میری خاموش شاعری اُسے متاثر کیا کرے گی
پتھر ہے اُس کے سینے میں جناب دل نہیں
تباہ حالت میری مفلسی اُسے متاثر کیا کرے گی
میرے افسانوں کی ڈائیریاں چیخ چیخ کے تھک گئیں
میری عشقِ داستان آخری اُسے متاثر کیا کرے گی
میری دوریاں جو ہنس کے گزار دیتا ہے
پھر وہاں میری موجودگی اُسے متاثر کیا کرے گی
میرا رونا ، میری آہیں ، وہ پیروں میں مسل گیا
میری خاموشی میری بے بسی اُسے متاثر کیا کرے گی
نہال جسے میسر ہو وصال ہزاروں کے
وہاں پھر میری علیحدگی اُسے متاثر کیا کرے گی