بھلا کب تک تری یادوں سے اپنے دِل کو بہلاؤں
کہاں تک میں تری سوچوں سے آ نگن دِل کا مہکاؤں
مری کمزور ماں بیٹی کے دُکھ اب سہہ نہیں سکتی
یہی اچھا ہے اپنے زخمِ دِل اس کو نہ دِکھلاؤ ں
تری خوشبو رچی ہے اِس طرح سے میری سانسوں میں
میں چاہوں بھی تو اپنے سے الگ اِس کو نہ کر پاؤ ں
ابھی کہنی ہیں مجھ کو آپ سے کچھ ان کہی باتیں
میں سب کہنا تو چاہوں آپ سے ، پر کہہ نہیں پاؤ ں
تمہارے بن مجھے اب ہر خوشی پھیکی سی لگتی ہے
کہاں تک راستہ دیکھوں کہاں تک خود کو سمجھاؤ ں
ہویٔ دوپہر رُخصت شام کے ڈھلنے لگے ساۓ
در و دیوار مجھ سے کہہ رہے ہیں لوٹ بھی آؤ ں
مرے اندر کا موسم کِس قدر ویران ہے عذرا
کہیں ایسا نہ ہو تنہا ئیوں میں گھٹ کے مر جاؤ ں