بھول نہ جائیں کہیں رانجھا کے افسانے مجھے
علمِ چاہت پھر دہر میں دیجے پھیلانے مجھے
گلستانِ عاشقاں میں ہے خزاں آئی ہوئی
آخرش ان کے مسائل بھی ہیں سلجھانے مجھے
ہائے یہ حسنِ مقدر چاند اترا ناگہاں
آیا ہے اور دیکھئے تو ساتھ لے جانے مجھے
ہاں تسلسل دیکھنے کا توڑنا بالکل نہیں
پھر زلیخا کی طرح ہیں ہاتھ کٹوانے مجھے
آج روتے ہیں سنا ہے مجھ سے ملنے کے لئے
کل سرِ بازار تھے جو آئے ٹھکرانے مجھے
چاہتِ جاناں ملی ہے نہ رضائے کبریا
لے چلو اے ہم نشینو! آج مے خانے مجھے
دور ہو کر بھی شناسا ہے مری عادات سے
ہیں جو رہتے پاس میرے وہ نہیں جانے مجھے
جعفری تو نے غموں کو لکھ دیا کچھ اس طرح
اب تو شاعر مانتے ہیں اپنے بیگانے مجھے