بھیگا موسم ، رم جھم بارش ، آنکھ میری بھر آئی پھر
دیکھ کے بادل گہرے گہرے یاد تیری ہے آئی پھر
ہم تم بچھڑے برسوں بیتے، کیوں ساون یہ یاد دلائے
گرتی بوندیں شور مچائیں ہجر کی بدلی چھائی پھر
گرجیں بادل، بجلی چمکے، عکس تیرا دکھائی دے
جاگ رہی ہے دھیرے دھیرے آج میری تنہائی پھر
بند ہیں آنکھیں بھیگ رہی ہیں ایسے کچھ یاد آئے تم
من آنگن میں پھیلی ہر سو یادوں کی پرچھائی پھر
کہہ تو دو دنیا سے پل میں اپنا فسانہ لفظوں میں
مجھ کو پر منظورنہ ہوگی الفت کی رسوائی پھر