بھیگی بھیگی سی وہ راتیں
سہمی سہمی سی وہ سانسیں
مہکتی سی وہ خشبوئیں
شبنمی سی وہ آنکھیں
دل میں وہ اترجائیں
تیری میٹھی میٹھی باتیں
نظروں میں وہ ملاقاتیں
الفت کی وہ سوغاتیں
چاہت تھی تیری ایسی
نا تھی کوئی تجھسے شکایتیں
وہ ٹھنڈی ہوا کے جھوکے
ستاتی مجھے ہیں تیری یادیں
جو لگائی تھی آگ محبت کی
اب بھی جلتی ہیں وہ چراغیں
کرتی ہیں شور دل کی دھڑکنیں
ہو تی جب محسوس تیری آہٹیں
نیندیں ہوتی گئی لا تعلق مجھ سے
نا ہوتی بن تیرے کوئی کاوشیں
تجھ سے ہے زندگی ہے فسانہ
نہیں ججتیں تیر ی یہ سازشیں