بھیگی رُت کی وہ ملاقات، ذرا یاد کرو
تم نے چُوما تھا میرا ہاتھ، ذرا یاد کرو
کس کے چہرے سے اماوس ہوئی تھی روشن
حُسنِ تاباں کی کرامات، ذرا یاد کرو
اَدھ کُھلی کھڑکی میں راستہ تکتی آنکھیں
بے قراری کے وہ لمحات، ذرا یاد کرو
کانپتے ہونٹوں نے دُعاﺅں میں لیا تھا میرا نام
جھیل سی آنکھوں میں برسات، ذرا یاد کرو
ہائے وہ تیرا ہر اِک وعدہ بھُلا کر کہنا
’بھُول جاﺅ وہ ہر اِک بات٬ ذرا یاد کرو