ہمیں اب یاد آتا ہے
بہت معصوم تھے ہم بھی
کہ ہم اک اجنبی کو عمر کی تاریک راہوں میں
سہارا مان بیٹھے تھے
کہ اس کے چاند چہرے کو
ہم اپنے بخت کا روشن ستارہ مان بیٹھے تھے
ہمیں معلوم ہی کب تھا
کہ دشت زندگانی میں سہارا چھوٹ جاتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا یے
نظر جن پہ ٹھہرتی ہے
وہ تارے ٹوٹ جاتے ہیں
بہت معصوم تھے ہم بھی