بیٹھا رہا میں دیر تک بے حال دسمبر میں
کہا تھا جس جگہ میں نے پچھلے سال دسمبر میں
جب پتے شجر سے بچھڑ رہے تھے
بے آسرا ہو کے وہ
سردی میں ٹھٹھر رہے تھے
یہ پتے اور یہ دسمبر تمہارے پاس امانت ہے
انجان راستوں کا اک سفر تمہارے پاس امانت ہے
یاد ہے وعدہ تیرا بھی امانت میری لوٹانے کا
ادھورے خط لوٹانے کا، دسمبر میں آنے کا
پورا سال اُسی وعدے کے بھروسے پہ بِتایا ہے
مگر تم نہیں لوٹے، دسمبر لوٹ آیا ہے