بیٹھی رہوں گی کب تلک اس انتظار میں
ڈوبی ہوئی ہے شام بھی شب کے خمار میں
کس درجہ بے سکوں ہیں محبت کے بعد ہم
صدیاں غموں کی سونپ دیں دو دن کے پیار میں
ساحل پہ بھی حیات تھی اک مرگ ناگہاں
غم کی ہے بھیڑ ہر طرف اس لالہ زار میں
اب موسمِ خزاں کے رہیں کیوں نہ منتظر
ویران کر دیا ہے چمن کو بہار میں
رسوا تھے پر نہ اتنے ہوئے جب سے تنگدست
تھوڑا بھرم بھی رہنے دیا نہ ادھار میں
دورِ فغاں میں آہ بھی بھرنے پہ ہے سزا
مشکل ہے زندہ رہنا تری اس بہار میں
یہ اہل شہر کس لئے وشمہ سے ہیں خفا
کچھ بھی نہیں ہے جب کہ یہاں اختیار میں