انا پرستوں کو ازل سے قید اور پھانسیاں ملیں
تہزیب کے کھنڈروں میں مظلوم بستیاں ملیں
شیش محل تعمیر ہوئے مزدوروں کے خون سے
ہمیشہ غریب کے بچوں کو فاقہ کشیاں ملیں
ڈھونڈنے والوں کے پاس تھے گمراہی کے راستے
جسے خدا نہ مل سکا اسے بت پرستیاں ملیں
بتوں کو چھوڑ کر انساں کے شکنجے میں آ گئے
خدا سے دور کیا ہوئے مادہ پرستیاں ملیں
تیرا در چھوڑ کر جو مانگتا ہے ادھر ادھر
اسے رنج و علم ملا اور تنگ دستیاں ملیں
جہاں ڈوبتا سورج ادب سے سلام کرتا ہے
وہاں بے بس کرنوں کو عظیم ہستیاں ملیں
عادل تو عمر بھر انصاف کے جلاتا رہا چراغ
پھر بھی بے سمت ہوائوں کی انا پرستیاں ملیں