بے قراری کا سلسلہ ہو گا
درد سے دل بہل گیا ہو گا
رقص جاری ہے کیوں ہواؤں کا
اک دیا سا کہیں بجھا ہو گا
دور رہ ہجر کے فقیروں سے
موج میں آ گئے تو کیا ہو گا
لوٹ آیا اسی خیال سے پھر
وہ مری راہ دیکھتا ہو گا
بٹ گئی کرچیوں میں بیداری
خواب آنکھوں میں چبھ گیا ہو گا
سانس لینے میں پیش ہے دقت
درد خاموش ہو گیا ہو گا
زینؔ ہوں، یاد کیجیئے مجھ کو
آپ نے نام تو سُنا ہو گا