جو نصیب ہے ترا آجکل، کبھی وہ مرا بھی حبیب تھا
وہ بے وفا ہے بے وفا، اس بے وفا کی نہ بات کر
تجھے مجھ سے کیا ہے دل لگی، جو آن کر بیٹھو یہاں
جو معاملہ ہے بیان کر، یوں ادھر ادھر کی نہ بات کر
اس کے گھر کا سفر ہے یہ، ذرا بن سنور کے تو جائیو
اپنے گناہ کی تلافیوں میں، مری مغفرت کی بھی بات کر
توڑ دے مری انا کے بت ، جلادے میری ذات کو
مگر التجا ہے مری فقط، مجھے چھوڑنے کی نہ بات کر
وہ بے وفا ہے تو کیا ہوا، وہ دیوتا ہے مرے لئیے
تو ہے بے وضو، یونہی خوامخواہ، مری دلربا کی نہ بات کرے