زندگی میں کوئی کمی سی ہے
کس لیے دل کو بے کلی سی ہے
جب سے واقف ہوئے ہیں ہم ان سے
ساری دنیا ہی اجنبی سی ہے
اب تو آجا کہ مدتیں گزریں
زندگی کچھ تھکی تھکی سی ہے
ہم نے تو کچھ نہیں کہا ان سے
رخ پہ پھر کیوں یہ برہمی سی ہے
اس کی آنکھوں میں ڈوب کر دیکھو
ان میں گہرائی جھیل کی سی ہے
ہے زمانے سے دوستی ا ن کی
ایک ہم سے ہی دشمنی سی ہے
جینا مشکل ہے دورِ حاضر میں
ہر نفس گویا جاں کنی سی ہے
کیا کوئی اپنی جاں سے کھیل گیا
ان کی آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
جانِ محفل تری جفاؤں کی
داستاں کچھ سنی سنی سی ہے
اس نے دیکھا ہے اس طرف شاید
دردِدل میں بھی کچھ کمی سی ہے
بس سماعت پہ اعتبار نہیں
یوں تو آواز آپ کی سی ہے
آدمی آدمی سے ہے نالاں
سب میں احساس کی کمی سی ہے
آمدِ صبح کا ہے غل یاسر
یہ سیاہ رات اب ڈھلی سی ہے