تاسف نہ تھا ذرا بھی تمھیں ہم سے بچھڑ کر
ملا خاک میں گھمنڈ ہمیں دیکھو گے تم مڑ کر
یونہی کسی کے لب پہ تھا تمھارا ذکر خیر
تو اب رلادیتا ہے نظروں میں اتر کر
تھی جستجو ہماری نہ بجھ پائے یہ چراغ
گرا طوفان کی زد میں میرا مکان بکھر کر
ہم چونکیں گے بھلا کیوں تیرے سنگ خراب سے
ہوجاؤگے قائل ذرا دیکھو کبھی مر کر
صادق انکی آنکھوں میں بڑی التجائیں تھیں
حالت خراب ہوگئی دیوانوں سے بڑھ کر