تجھے رستہ سمجھتے ہیں، تجھے منزل سمجھتے ہیں
Poet: خلیلی قاسمی By: خلیلی قاسمی, Indiaتجھے رستہ سمجھتے ہیں، تجھے منزل سمجھتے ہیں
تجھے ہم ابتدا و انتہائے دل سمجھتے ہیں
جہاں کچھ بھی کہے لیکن ہمارا فیصلہ یہ ہے
تجھے ہم ہر طرح سے عشق کے قابل سمجھتے ہیں
ہماری بے خودی پر عقل کو بے حد تعجب ہے
تجھے محبوب کہتے ہیں تجھے قاتل سمجھتے ہیں
حیات و موت تیری ذات میں محصور کہتے ہیں
تجھے ورطہ سمجھتے ہیں، تجھے ساحل سمجھتے ہیں
محبت جس میں نہ ہو اس کو ہم ویرانہ کہتے ہیں
محبت جس میں بستی ہو اسے ہم دل سمجھتے ہیں
وہ غیرت اور خودداری جو جھکنے سے ہمیں روکے
تمہارے راستے کا اس کو ہم حائل سمجھتے ہیں
نہ ہی عاشق سمجھتے ہیں، نہ ہی شیدا سمجھتے ہیں
ترے دروازے کا خود کو فقط سائل سمجھتے ہیں
گزرتے ہیں جو لمحے تیری یادِ پاک میں جانم
اسی کو زندگی کا اپنی ہم حاصل سمجھتے ہیں
ہماری ایک اک رگ میں تمہارے جلوے ہیں پیوست
ذہن کو گھر ترا سینہ ترا محمل سمجھتے ہیں
ہمیں احساسِ تنہائی ستائے یہ نہیں ممکن
تمہاری یاد کو ہم جلوہٴ محفل سمجھتے ہیں
مری وحیٴ محبت پر نہ ہو جس شخص کا ایماں
خلیلی# اس کو ہم تکفیر کے قابل سمجھتے ہیں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






