بھری محفل میں یہ راز عیاں ہو گیا
جو میرا یار مجھ سے نالاں ہو گیا
نا جانے اُن کی آنکھوں میں کیا تھا
ایک ہی ملاقات میں جانِ جاں ہو گیا
تجھے ڈھونڈنے نکلا تھا اور کب
تری تلاش میں خود ہی لا مکاں ہو گیا
ترے قدم کیا نکلے اِس غریب خانے سے
دیکھتے ہی دیکھتے ویراں ہو گیا
جب دیکھا یار نہیں مانتا سیادت میں
باندھ کے گُنگرو بُلھا بھی داناں ہو گیا
مجھ پروانے کو بھی ناز تھا خود پر
آخر کار صورتِ چراغ پہ قرباں ہو گیا
کچھ اِس طرح ہمیں بھی عشق کی لت لگی
جہاں، بھی تارکِ جہاں ہو گیا