تجھے کیا معلوم ترے دیوانے کتنے ہیں
اے شمعِ حُسن ترے پروانے کتنے ہیں
جو جل جانے کو تیار ہیں مچلتے ہوئے
ایسے پروانے تُو کیا جانے کتنے ہیں
شاعر میں بنا ہوں ترا طلبگار بن کے
میرے گیتوں میں ترے نام کے ترانے کتنے ہیں
کنارے سے پتہ نہیں چلتا کچھ میرے دوست
سمندر کی گہرائی اِس میں خزانے کتنے ہیں
مشکل میں یہ راز کُھل ہی جاتے ہیں
اپنے کتنے ہیں اور بیگانے کتنے ہیں
پڑھوں کبھی میری کتابِ عشق بیٹھ کے
پتہ چلے تمکو محبت کے افسانے کتنے ہیں
کیوں ناز کرتے ہو تم نئے دوستوں پے
دیکھوں میری جانب میرے ساتھ پرانے کتنے ہیں
دوچار سانسیں جی لو سنگ نہال کے آج
کیا بھروسہ دم کا دم آنے کتنے ہیں