تجھ سے ملوں تو ساری فضا شبنمی لگے
خوشبو ، بہار ، رنگ ، محبت ، نئی لگے
پژمردگی سی روح پہ چھانے لگی ہے دوست
ملتے رہا کرو کہ حسیں زندگی لگے
ٹالی نہیں گئی ہے تمہاری کوئی بھی بات
اپنی خوشی سے بڑھ کے تمہاری خوشی لگے
رک رک کے چل رہی ہیں ہوائیں بھی سانس بھی
یوں ہے کہ تو نہیں ہے تو دھڑکن تھمی لگے
خود سے بچھڑ گئے ہیں تمہاری تلاش میں
اور یوں کہ اپنا آپ ہمیں اجنبی لگے
یہ جو نہیں رہی ہے زمانے کی کچھ خبر
دل میں کسی کی یاد کی محفل سجی لگے