سب کچھ ہی سہہ گیا ہوں کبھی التجا نہ کی
" تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی"
ممکن نہیں کہ یوں ہی جدا ہو گئے ہوں ہم
تم نے خطا نہ کی کوئی ہم نے خطا نہ کی
قدرت کو تھا کچھ اور ہی منظور کیا کریں
شاید ہی کوئی شب ہو جو ہم نے دعا نہ کی
کوئی بھرم نہ رکھ سکا اپنے خلوص کا
ہم نے کبھی کسی کے لیے بد دعا نہ کی
میرے دکھوں کا وہ بھی مداوا نہ کر سکا
خاموش ہو گیا میں کبھی التجا نہ کی
اٹھتے ہیں ہاتھ اپنے سبھی کے لیے یہاں
اپنے لیے تو ہم نے کبھی بھی دعا نہ کی
ارشیؔ ہمیں خبر ہے ترے ساتھ کیا ہوا
تو نے کیا تھا عشق مگر انتہا نہ کی