تحریر کر رہی ہوں دیبابچہ حیات میں لفظوں کے گلاب سارے
کھل جائیں گے تجھ پہ بھی باب سارے وہ نصاب سارے
گماں کے پنچھی اڑیں گے جب تیرے خیال کی منڈیر پر
جاگتی آنکھوں میں پھریں گے در بدر وہ خواب سارے
میں ہی نہ تھی اپنی زندگی کے دلچسپ امتحان میں
اس کے تھے سوال سارے اسی کے تھے جواب سارے
مجھ سائل محبت کو یوں مجروح نہ کر کہ اک دن
تیرے دل کی مسند پہ بیٹھ کر لوں گی حساب سارے
کچھ پہلے ہی پر خاش تھی ان کو ہماری شدتوں سے
اور ہم بھی بھول گئے دیکھ کر ان کو آداب سارے
راہ گیر ہے کوئی آوارہ سا مسافتوں کی گرد سے اٹا ہوا
چلتے چلتے لٹ گیا تو جان جائے گا راہوں کے سراب سارے
تجھے بھولنے کی خاطر میں بھٹک گیا جہاں جہاں جانے کہاں کہاں
وہ گلی گلی وہ شہر شہر تھے ہجر کے زیر آب سارے
لپٹ جائیں گی گفتگو سے وہ تنہا تنہا سی خاموشیاں
دل میں اتریں گے جو آگہی کے عذاب سارے