تحسین و آفریں پہ چلتے باکمال منزلوں کو ہم نے گمراہ کرلیا
صحبت کی سنگینیاں تو بہت تھیں مگر اپنے آپ ہم نے ہمراہ کرلیا
بالیدگی سے بڑہ کر تو ہمیشہ اپنا اعتبار منسوب ہوا ہے
کیسی تھی وہ عدالتیں اور کس کس کو ہم نے گواہ کرلیا
یہاں محتسب تو بنتے ہیں مگر بازپرسی کہیں بھی نہیں
زرگروں سے زخم نہ سلے تو اپنے ہی درد کو ہم نے دوا کرلیا
تو زندہ ہے تو تمہاری حد میں تمام تخیل تمہارے عمل ہیں
اُسی وقت ہی اصول پہ آکر ایمان سے ہم نے اصلاح کرلیا
تسلیم کرلیتے ہیں کہ درد اور حالات میں موافقت بھی نہیں
جو ملا اپنے مزاج سے بقدر تو اسے ہم نے ہم نوا کرلیا
میری رفاقت کس سے پوچھوں لوگ اپنی شناخت بھول چکے ہیں
جس کا کوئی وجوُد ہی نہیں وہ زندگی جیء کر ہم نے کیا کرلیا