ترا ملنا تو خواب ہے پیارے
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreترا ملنا تو خواب ہے پیارے
تُو بھی گویا سراب ہے پیارے
سب سے ملتے ہو مسکراتے ہوئے
ہم سے کیوں اجتناب ہے پیارے
میں تو نظریں جھکائے بیٹھا ہے
پھر بھی مجھ سے حجاب ہے پیارے
تری محفل میں ایک میرے سوا
ہر کوئی باریاب ہے پیارے
اِس سے کیا ہو گئی خطا آخر
یہ جو زیرِ عتاب ہے پیارے
جس کے پڑھنے سے جی نہیں بھرتا
تُو تو ایسی کتاب ہے پیارے
گھنی زلفوں تلے ترا چہرہ
گویا اِک ماہتاب ہے پیارے
ہر طرف روشنی ہے پھیلی ہوئی
تُو بھی اِک آفتاب ہے پیارے
ساتھ لایا قیامتیں کیا کیا
یہ جو تیرا شباب ہے پیارے
یوں نہیں پھرتے بے حجابانہ
یہ زمانہ خراب ہے پیارے
میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں
تُو مرا انتخاب ہے پیارے
مرے دل کے سبھی سوالوں کا
تُو مکمل جواب ہے پیارے
سچ تو یہ ہے ترے بِنا اپنی
زندگی اِک عذاب ہےپیارے
اب تو منزل قریب آ پہنچی
اب یہ کیوں اضطراب ہے پیارے
ہنس کے ملنا بھی اس زمانے میں
ایک کارِ ثواب ہے پیارے
کس سے کہئے گا حالِ دل اپنا
کس میں سننے کی تاب ہے پیارے
رات بھر اُس کی یاد میں رونا
ہجر کا پہلا باب ہے پیارے
جی یہ صحرا نوردیاں اپنی
عاشقی کا نصاب ہے پیارے
عشق تو پاکباز ہوتا ہے
حسن کیوں بے نقاب ہے پیارے
جس نے دل میرا کر دیا زخمی
اُس کا چہرہ گلاب ہے پیارے
کس کی سوچوں میں غرق رہتے ہو
جو سراپا شراب ہے پیارے
دکھ بھری شاعری تو ہے میری
اور تُو انتساب ہے پیارے
تپتے صحرا میں ڈھونڈتا ہوں تمہیں
اور تُو اِک سراب ہے پیارے
کس بھروسے پہ جی رہے ہو تم
وہ تو عالی جناب ہے پیارے
آپ بھی اب لگے غزل کہنے
یہ عجب انقلاب ہے پیارے
خون سارا نچوڑ لیتی ہے
شاعری اِک عذاب ہے پیارے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






