تری زلف جب سے ہے زنجیر پا
ہوئی رشک مختار تقدیر پا
ہوا انکے پیروں سے پامال دل
تو کندا ہوئی دل پہ تصویر پا
اگر پاؤں اس خاک کو چوم لیں
تو ہو دست عیسی سی تاثیر پا
وہ آئے یہاں پہ تو ہم چومتے ہیں
زمیں کے صحیفے پہ تحریر پا
مرے نقش پا ہیں جو انکی گلی میں
انھیں کوئی سمجھائے تقریر پا
یہ کہتے ہوئے گل ہوئے فرش راہ
سلامت رہے انکی توقیر پا
کہیں گے ثریا زمیں پر بھی ہے
ملائک جو دیکھیں گے تنویر پا
ہوا شان جو آبلہ پا راہ میں
ہوئے خار رہ اسکے اکسیر پا