تری طرح میں وعدوں سے مُکر جاؤں کیسے
غم کی بزم میں جانِ جاں مسکراؤں کیسے
دیوارِ چین سے بڑی ہیں مجبوریاں میری
آؤں بھی تو میں تجھ تک آؤں کیسے
مسلسل ہو رہی ہے گفتگو دل کی ماضی سے
تری باتیں ، وہ راتیں میں سب بھلاؤں کیسے
میرے آگے کھڑا ہے ہجوم دشمنوں کا
میرے پیچھے ہیں اپنے خود کو بچاؤں کیسے
گونج رہی ہیں کانوں میں صدائیں تری
اتنے شور میں دل غمزدہ کو سلاؤں کیسے
لکھ تو لیتا ہوں میں تری یاد کے افسانے
سازِ جہان کے ساتھ افسانے میں گاؤں کیسے
رونا چاہتا ہوں میں آج تجھ سے لپٹ کر
نہالؔ مگر یہ ارمان بھی پورا کر پاؤں کیسے