ترے جمال کے قصے بہت طویل ہوے
مری جوآنکھ کے موتی تھے اب تو جھیل ہوے
تجھے نگاہ میں اپنی بسا لیا تھا مگر
ترے وصال کے لمحے بہت قلیل ہوے
جو میری بات کو سننا فضول کہتے تھے
وہی تو لوگ ہیں جو اب مرے حلیل ہوے
تڑپ کے تشنگی سے ہم نے جاں گنوائی جہاں
وہی ہیں راستے لیکن ہیں اب سبیل ہوے
بلا کو دیکھتےہی جوتمہیں تھے چھوڑ گئے
یہ کیسے لوگ تھے سائل ترے خلیل ہوے