ترے دل سے اترتا جا رہا ہوں
دمِ آخر میں بھرتا جا رہا ہوں
یہ میری زندگی ہے یا تری ہے
جسے برباد کرتا جا رہا ہوں
تمھیں کھو کر یوں لگتا ہے کہ جیسے
زمانے میں بکھرتا جا رہا ہوں
تری فرقت میں تنہائی کے ہاتھوں
میں اپنا خون کرتا جا رہا ہوں
کبھی اُس پر، کبھی کِس پر، کبھی کیا
مگر میں ہی کیوں مرتا جا رہا ہوں
پڑا ہے واسطہ تم سے تبھی سے
میں غم سے ہی بسرتا جا رہا ہوں
مری جاں، میرے دن کم رہ گئے ہیں
میں اب تجھ سے مکرتا جا رہا ہوں