تیرے ہونٹوں کی سلوٹ میں میری رات ابھی باقی ہے
مت کھول آنکھ کہ میرا خواب ابھی باقی ہے
اپنی زلفوں کو نہ سنوار قمرِ شوال میں
کہ تشنگیِ وصال کا سوال ابھی باقی ہے
سردیِ بدن کی حدت سے کانپ اُٹھا ہوں میں
کہ میرے شانے پے ٹوٹا تھا جو تیرا بال ابھی باقی ہے
مت روک اپنی انگڑائی کی شکن کو میری نظر سے
کہ دیکھ کیا ہوا ہے میرا حال ابھی باقی ہے
گیلے ہاتھوں میں تیری اُنگلیوں کے نشاں
کہ تھی جو بھی گرمیِ وفا ابھی باقی ہے