تصوارت کے حسرت کدے ميں کون آيا
چراغ تا حد احساس جلتے جاتے ہيں
بس ايک موت کی حد تک پہنچ سکی ہے نگاہ
کہاں ملی ابھی دريائے سانحات کی تھاہ
موجہ نکہت فيسو جسے سمجھا ميں نے
وہ بھی ميرے نفس سرد کا جھونکا نکلا
چاند چمکا شفق ابھری ہوئی زربار سحر
اس نے اک پر تو رخسار سے سو کام لئے
خاموش بھي کرديتی ہے تاثير سخن کی
کچھ داد ہی اشعار کی قيمت تو نہيں ہے
غاصب جلوہ فطرت ہے يہ دور ايجاد
دشت سے چھين ليا منصب ويرانی تک
اس کے لب و عارض کو کيوں غنچہ و گل کہہ دوں
کيوں حسن کی يکتائی رسوا مثالوں سے