سوہنی، سسی، صاحباں، ہیر بنا رہا ہوں
ان سب کا حاصل، تیری تصویر بنا رہا ہوں
حسرتِ دیدار مدت سے تھا اک سپنا
دلکش سپنوں کی آج، تعبیر بنا رہا ہوں
بنتی ہیں جوڑیاں، آسمانوں پہ سبھی
مگر خود میں اپنی، تقدیر بنا رہا ہوں
ذولفوں کی زنجیروں میں، آ لپیٹ لے
خود کو تیری ذولفوں کا، اسیر بنا رہا ہوں
وہ اسے پڑھ کر ، اظہار کرے کاش
جس کے واسطے ، یہ حاوی تحریر بنا رہا ہوں