مجھ پر جمال یار کا یوں سحر چھا گیا
تصویر بن گیا ہوں تصویر دیکھ کر
قسمت سے جانے کیوں ہیں لوگ شکوہ مند
روح کھل اٹھی ہے اپنی تقدیر دیکھ کر
انداز پر تبسم، دل جو خرام ناز
حیراں ہوا ہوں گفت تاثیر دیکھ کر
ڈر ہے فقط کہ آڑے آئے نہ مفلسی
افسردہ ہوں رقیب کو امیر دیکھ کر
ملتا ہے کس جگہ پہ تجھ سے میرا نصیب
میں ڈھونڈتا ہوں ہاتھ کی لکیر دیکھ کر
دیدار کی طلب ہے آجائیے صنم
غمگین ہو گیا ہوں تاخیر دیکھ کر
چاہت تیری نے ایسا دیوانہ کردیا
ہنستے ہیں اب ضیا کو راہگیر دیکھ کر