ایک مطلع
تعلقات میں آداب نہ بھلایا کرو
خدا کے واسطے اس وقت تو نہ آیا کرو
قطعہ
ہم سبھی تو کر رہے تھے حادثوں کی پرورش
ہو گئے ہیں اب جواں تو پوچھتے ہو کیا ہوا
آج تک تو نعمتیں ہی نعمتیں تھیں درمیاں
آزمائش آ گئی ہے اس برس تو کیا ہوا
غزل
یہ ہاؤ ہو یہ تماشا ہے صبح نکلنے تک
کوئی دو سین ہی باقی ہیں پردہ گرنے تک
اداس ہوں تو کسی کی خوشی کی خاطر ہوں
عدو بھی خوش ہے تو ہے میرے مسکرانے تک
نشاں لگا لو ابھی سے جہاں پہ جانا ہے
نظر جو آتا ہے کچھ کچھ، ہے دھول اڑنے تک
ابھی نہ وقت مناسب نہ پھول عمدہ ہیں
خزاں کے جانے سے پہلے بہار آنے تک
کیا بتاؤں کہاں تک رسائی تھی میری
نئی زمین میں تازہ غزل کے ہونے تک
عرضی
اس اذیت سے خدارا نہ گزارا جاؤں
پھر زمیں پر میں دوبارہ نہ اتارا جاؤں
یا خلافت کے زمانے میں مجھے لوٹا دو
یا مری زِد ہے کہ نائب نہ پکارا جاؤں
غزل
ہو گئے مسائل حل
مل گئی نئی مشکل
بحرِ بے کراں ہوں میں
مہ جبیں مچا ہلچل
تیرے نام کرتا ہوں
زندگی کا ہر خوش پل
خودکشی سے ڈرتا ہوں
زندگی سے ہوں بددل
آج خوب برسے گا
پھر ہے موڈ میں بادل
کیسی باتیں کرتے ہو
خبطی، عقل سے پیدل
ٹھیک ٹھاک سویا تھا
خوب رو جواں کڑیل