کھڑے ہیں یاس و امید کے کنارے پر
انتظار ہے اب یہ ہمیں بھی توصیف
تقدیر بدلتی ہے بدلنے والے کے اشارے پر
میرے ضبط کی وہ بارشیں
کہ مجھ پہ عیاں اب ہوگئیں
وہ میرے اپنوں کی سازشیں
ہر ساعت جیسے بے ربط ہے
میں جو جی رہا ہوں ہجر میں
یہی عشق ہے یہی ضبط ہے
ہر جگہ لکھتا ہوں تیرا نام اپنے نام سے پہلے
پکارتا ہیوں ہر صدا میں تجھے ہی خدا کے بعد
کرتا ہوں تیرے نام کا وضو ، پر قیام سے پہلے
درد کی اک صلیب ہے
دل کی دھڑکن سے زیادہ
کوئی دل کے قریب ہے