نہ پوچھ دیکھ کے کتنا ملال ہوتا ہے
کہ درد وغم پہ چہرہ ہی لال ہوتا ہے
تمارے ضبط کو کیوں اور آزماؤں گی
تمارے صبر کا ہمدم خیال ہوتا ہے
مری حیات میں اے رنگ بھرنے والے سن
مدام تجھ کو وفا کا سوال ہوتا ہے
ہمیں یہ ضد ہے کہ تجھ سے کبھی نہ مانگیں گے
تمارے وصل کا منظر زوال ہوتا ہے
نہ جانے تیری کیسی وفا آشنائی ہے
یہ ہم پہ جو سدا ایسا زوال ہوتا ہے
پڑھا کرو اسے دل کی نگاہ سے ہر بار
تمارے نام ہی اپنا کمال ہوتا ہے
مرے حواس پہ چھایا ہے کتنا سناٹا
نکلنا گھر سے اپنا محال ہوتا ہ