یہ آنکھیں اور یہ چہرہ
سویرے کی فضا جیسے
وضو زم زم سے کرکے آئی ہو کوئی شعاع جیسے
کُھلا جنت کا دروازہ
سکونِ دائمی کی ہورہی ہو ابتدا جیسے
مجسم ہو حیا جیسے
کسی دیوی کے بُت میں زندگی یکلخت کروٹ لے
وہ کربِ عشق میں ہوجائے یک دم مبتلا جیسے
محبت ضبط کے زنداں میں روتی اور سسکتی ہو
کمالِ ضبط، سوزِ عشق سے زورآزما جیسے
غضب معصومیت، کردار جیسے ہو فرشتوں کا
عجب پاکیزگی، ہو چاندنی میں موتیا جیسے
ہے پیشانی، کہ وقتِ فجر ہو محراب مسجد کی
یہ آنکھیں، راہ جنت کی دکھاتا ہو دیا جیسے
بچھی صحن حرم کی دھوپ رخساروں پہ اتری ہے
لبوں کا ذکر کیا کیجے، عبادت میں دعا جیسے
تقدس چشم وچہرے کا اتر آیا ہے لفظوں میں
سخن پارہ یہ میرا ہوگیا حمدوثناء جیسے