تمہارا دن ڈھلے جونہی ہماری شام کھو جائے
کہ جیسے مہ کشوں کے تھامتے ہی جام کھو جائے
ہمارا دل اکیلا ہو تمہاری شام کھو جائے
کبھی تنہا سنہری شام کی ہر گام کھو جائے
مسافر کی طرح بھولیں کبھی یونہی سرِ منزل
کہ نکلے چاند بادل سے مگر وہ بام کھو جائے
حیاؤں کی ردا اوڑھے کبھی یوں دل میں تم اترو
فرشتوں کی طرح ہم ہوں مگر الہام کھو جائے
تمہی کو ڈھونڈنے پھر چاند بھی جب بام سے نکلے
شجر چپ چاپ ہوں اور راستوں میں شام کھو جائے
ستارے چاند کو بھولیں کہاں لب پھول بھی کھولیں
کسی کا چہرہ کھو جائے کسی کا نام کھو جائے
سفر میں ہر گھڑی کچھ پل ہمارے ساتھ چلتے ہیں
تمہاری یاد ہو اور سانولی سی شام کھو جائے