تمہاری سرد مہری دیکھ کر کُچھ اچھا سا لگا ہے
غم سے بوجھل دِل اب کُچھ ہلکا سا لگا ہے
آنسُو بہاتی تھیں گھٹائیں، سِسک رہی تھیں ہوائیں
کالی بدلیاں اب ہنس رہی ہیں، پتوں کا ہِلنا کُچھ نغمہ سا لگا ہے
کل کو تنہا بیٹھا تھا، بات کرنے کو ترس رہا تھا
آج تُمہیں نہ دیکھ کر لُطف کُچھ جُدا سا لگا ہے
جو کافی دِل جلا رہی تھی، جو سگریٹ سانسیں سُلگا رہی تھی
وہ کڑواہٹ مزہ دے رہی ہے، وہ شعلہ کُچھ دِیا سا لگا ہے
وہ جو خُود کو پانے کیلئے تُمہیں ڈُھونڈ رہا تھا
آج اپنا آپ اُسے کُچھ اپنا سا لگا ہے
زبردستی جِن یادوں سے تخیل کو آباد کِیا
مسرت کا وہ بوجھ کُچھ پُرانا سا لگا ہے
سبھی کہہ رہے تھے پَر تُو نہیں مانا عشقؔ
تعلق کو پیار کہنا اب احمقانہ سا لگا ہے