تمہارا قرب تھا یہ شعلہِ نہیں ہوتا
فصیلِ شہر سے باہر کھڑا نہیں ہوتا
یہ کہنا رات گذرتی ہے اب بھی آنکھوں میں
تمہاری یاد کا جو سلسلہ نہیں ہوتا
یہ کہنا چاند اُترتا ہے بام پر اب بھی
مگر وہ شبِ ماہ کا مزا نہیں ہوتا
یہ کہنا حسرتِ تعمیر اب بھی ہے دل میں
بنا لیا ہے مکاں تو ٹھکانہ نہیں ہوتا
یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کا بُرا نہیں ہوتا
یہ کہنا ہوگئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لُو تو اُسے خنک ہوا نہیں ہونا
یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بُجھے چراغ تو دل کا بھلا نہیں ہوتا
یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہ
کہ جیسے ہاتھ سے گر ا آئینہ نہیں ہوتا