بدن سے روح تلک ہم کو جاں بناتے ہیں
تمہارے عشق میں بھی جاں جہاں بناتے ہیں
ہوا کے ساتھ اڑی ہے محبتوں کی مہک
یہ تذکرے مرے جو آسماں بناتے ہیں
وہ قحط لطف ہے ہر دم ترے فقیروں پر
ہزار وسوسہ آتش بجاں بناتے ہیں
تمہارے حسن کی تشبیب ہی کہی ہے ابھی
چراغ جلنے لگے آشیاں بناتے ہیں
جب اس کی بزم سے چل ہی پڑے تو سوچنا کیا
کہ عرصۂ غم ہجراں کہاں بناتے ہیں
بجا ہے زندگی سے ہم بہت رہے ناراض
یہ کیا طلسم ہے کیا امتحاں بناتے ہیں
کبھی وہ چہرہ ہی وشمہ دکھائی دیتا ہے
گلی سے روز نیا کارواں بناتے ہیں