تمہارے وصل کا لمحہ بھی یوں گزارا تھا
زباں پہ شعر تھا سینے میں ایک آرا تھا
نہیں زمیں پہ اکیلے نہیں رہے ہم لوگ
خدا کے بعد کوئی اور بھی ہمارا تھا
ہوا یہ پوچھتی پھرتی ہے ہر مسافر سے
اطاق ہجر سے کس نے دیا اتارا تھا
تمھارے نام پہ ہوتے تھے دن کے ہنگامے
تمہاری یاد نے صبحوں کا روپ دھارا تھا
میں ایک خواب میں پہنچا تھا اس کنارے تک
وہاں پہ چاک تھا کوزے تھے اور گارا تھا
وگرنہ میں کہاں آتا اجل کی باتوں میں
مجھے تو تیری محبت نے آ کے مارا تھا
اسی لیے تو بلندی نہیں ملی مجھ کو
فلک سے دور مرے بخت کا ستارہ تھا
میں اشک اشک گراتا رہا نگیں آربؔ
مگر یہ ہار پرونا کسے گوارا تھا