تمہیں مجھ سے ہوں شکایتیں تو خوشی خوشی گلہ کرو
Poet: ISHTIAQ KAZMI By: WAQAS SHAH, rawalplindiتمہیں مجھ سے ہوں شکایتیں تو خوشی خوشی گلہ کرو
جو بیت گئے دن پیار کے انہیں واسطوں سے ملا کرو
یہ سمجھ سکوں یہ جان سکوں کہ ہوں کس جرم میں پڑا ہوا
میں لکھوں سوال تو جواب میں میری خطا بھی لکھا کرو
میں چاہتا ہوں تم بھی ڈوب کر اک اور جرم میرے سر کرو
یہ جو اٹھتی موجیں ہو دیکھتے انہیں غور سے سنا کرو
اس غم کی ہیں جو عنایتیں کبھی جان لو تو نہ جا سکو
جو کہوں تو اس کو سنا کرو جو لکھوں تو اس کو پڑھا کروں
میری بات پہ ذرا غور کرو کہ ہجر کی کم ہوں مشکلیں
وقت رخصت نہ مجھ کو بار بار مڑ مڑ کے دیکھا کرو
بڑی دور ہیں اب بھی منزلیں بڑا رستہ پر خار ہے
بن کر گرمی جذبات تم میرا جسم جسم آبلہ کرو
یہ حسن نظر کمال تھا کہ ہم ساعتوں میں راکھ ہوئے
کبھی دیکھو شمع کو مضطرب تھوڑا ذکر میرا کیا کرو
کبھی ہو کے مضطرب سوچنا کہ کون تھے تیرے آشنا
یہ تیری گلی کے جو ہیں گدا ذرا ان کے پاس رکا کرو
اشتیاق اپنی حالت زار پر تیرا احساس کیوں ہے مر گیا
اب صنم خانے کو چھوڑ دو اور حرم میں خدا خدا کرو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






