کرتے رہے خطا پہ خطا بار بار ہم
الفت میں میں ہو گئے ہیں جُنوں آشکار ہم
کھلنے لگے ریاضِ محبت کے ہم پہ در
روئے تھے آج رات فقط زار زار ہم
نو عمر اتنے جیسے کوئی ادھ کھلا گلاب
دھول اتنی تجربات کی جیسے غبار ہم
کیسے لکھیں جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
سینے میں ایک نعش ہے اور ہیں مزار ہم
ہم پر گزر گئے ہیں کئی سانحاتِ غم
زندہ ہیں کاٹ کر بھی شبِ انتظار ہم
تم عاشقی کو کھیل سمجھتے رہے ندیم
اور دل کا کھیل، کھیل کے، سینہ فگار ہم