تم ملے تو زندگی اچھی لگی
بن تمہارے بے کلی اچھی لگی
چھوڑ کر گیسو ہوا کے دوش پر
اک ادا سے وہ ہنسی اچھی لگی
موسم سرما کی بھیگی رات میں
شال میں لپٹی ہوئی اچھی لگی
جانے کس کی سوچ میں ڈوبی ہوئی
آنکھ اس کی ادھ کھلی اچھی لگی
کہنا یہ کہ آتی ہے تازہ ہوا
کھڑکیاں وہ کھولتی اچھی لگی
بات میری اور مخاطب غیر سے
گفتگو کی یہ سعی اچھی لگی
ایک اس کے واسطے اکبر مجھے
شہر بھر کی دشمنی اچھی لگی